غزہ نامی جیل کے 23 لاکھ قیدیوں نے بالآخر فیصلہ کن معرکے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دینے کی غرض سے الاقصی فلڈ نامی آپریشن کا آغاز کردیا ہے. اسرائیل پہ تین اطراف سے کھلے حملے کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار راکٹ بھی فائر کئے گئے، جس کے نتیجے میں لگ بھگ سو اسرائیلی ہلاک جبکہ سات سو کے قریب گھائل ہیں . اسرائیل کی جانب سے جوابی حملوں میں ہونے والے نقصانات کا گراف بھی کافی بلند ہے.
اس وقت غزہ کے اطراف میں دو بدو جنگ جاری یے. حماس کے عسکری ونگ الاقصی بریگیڈ نے مقبوضہ علاقوں میں کسی حد تک پیش قدمی بھی کی ہے اور کچھ صہیونی فوجیوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے اچانک حماس کو کیا ہوگیا ہے کہ اس نے اسرائیل سے کھلی جنگ چھیڑ دی ہے؟
فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے اب تک فلسطین کے بچے کھچے حصے کے دفاع کے لئے بہت سے گروہ میدان میں ہیں. حماس سے قبل سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کی 1956 میں قائم کردہ الفتح نمایاں جماعت تھی. الفتح مقبوضہ علاقوں پہ اسرائیل کا حق تسلیم کرتی تھی. مجموعی طور پر اس کی پالیسی فلسطینیوں کے امنگوں کی آئینہ دار نہ تھی، جس کی وجہ سے فلسطینی عوام میں بےچینی پائی جاتی تھی. اسی بےچینی کا نتیجہ تھا کہ نامور فلسطینی مزاحمتی رہنما شیخ احمد یاسین نے 1987 میں " حرکۃ المقاومۃ الاسلامی" نامی تنظیم کی بنیاد رکھی، جسے زبانِ عام میں حماس کہا جاتا ہے. حماس ہر اعتبار سے فلسطینیوں میں ایک مقبول جماعت تھی. اسے دنیا کی منظم ترین مزاحمتی جماعت کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا. اس تنظیم کا اپنا تعلیمی، فلاحی، سیاسی اور عسکری نظام تھا.
2006 کے انتخابات میں فلسطینی عوام نے حماس کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، مگر حریفوں کی جانب سے اسے اقتدار سے محروم رکھنے کی کوششیں کی گئیں. وہ بیرونی طاقتیں جو صبح شام جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں، وہ سب بھی اس منصوبے کا حصہ تھیں. جب نرم گفتاری اور شیریں لہجے سے مسئلہ حل نہ ہوسکا تو 2007 میں حماس نے بزورِ بازو غزہ سے الفتح کو بےدخل کرکے وہاں پہ قبضہ کر لیا.
غزہ پر حماس کے قبضے سے الفتح کو تو دھچکا لگا ہی مگر اسرائیل کے مفادات پہ بھی کاری ضرب پڑی. جواب میں صہیونی غاصب ریاست نے غزہ کی فضائی، سمندری اور زمینی کڑی ناکہ بندی کرکے اسے جیل میں تبدیل کردیا. گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں تو نام نہیں مگر بلاشبہ 23 لاکھ سے زائد آبادی والے غزہ کو تاریخ کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاسکتا ہے.
اس جیل کے قریب پھٹکنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے. احباب کو ترکی کی جانب سے غزہ بھیجے جانے والے بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا کا حشر تو یاد ہوگا. غزہ کے ایک طرف میں سمندر، دو اطراف میں اسرائیل کا قبضہ کردہ خشکی کا حصہ ہے، جبکہ تیسرا خشک حصہ مصر کی سرحد سے ملحق ہے. اس جیل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ جو حصہ مصر سے لگتا ہے، اس سے بھی فلسطینیوں کو آمد و رفت اور درآمد و برآمد کی اجازت نہیں ہے. اخوانی حکومت کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ اس نے فلسطینیوں کے لئے رفح کراسنگ یعنی اپنا بارڈر کھول دیا تھا. سیسی حکومت لائی ہی اس لئے گئی تھی تاکہ وہ اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرسکے، چنانچہ اب جب جنرل سیسی چاہتا ہے، بارڈر کھلتا ہے، جب چاہتا ہے، بند ہوجاتا ہے.
اب آتے ہیں اس سوال کے جواب کی طرف کہ حماس نے اچانک سے اتنی بڑی جنگ کیوں چھیڑ دی. تفصیلات سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حماس اور اہلِ غزہ پہ سخت ترین ناکہ بندی کی صورت میں اسرائیل کا ظلم دو ہزار سات سے جاری ہے. اسی وجہ سے غزہ کی ساٹھ فی صد آبادی بےروزگار ہے اور وہاں غربت عروج پہ یے. اس کے علاوہ اسرائیل جب چاہتا ہے فضائی حملے کرتا ہے اور جب چاہتا ہے ڈرونز کے ذریعے فضائی ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے. حماس کا آج کا حملہ عمل نہیں بلکہ ان تمام بدمعاشیوں کا انتہائی مجبوری کے عالم میں دیا جانے والا ردِعمل ہے.
دوسری بڑی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پہلے فلسطینیوں کو دیگر عرب ممالک سے بہت امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں، اب جب سے عربوں کو اسرائیل پہ پیار آیا ہے اور وہ دھڑا دھڑ اس سے سفارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے اس کے قبضے کو جواز فراہم کرنا شروع ہوئے ہیں تب سے فلسطینیوں کی رہی سہی امیدیں بھی بجھتی چلی جارہی ہیں. اب انہیں لگتا ہے کہ جو اژدھا انہیں سن اڑتالیس سے لقمہ لقمہ نگلتا چلا جارہا ہے، اپنوں کی بےوفائیوں کی وجہ سے وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ انہیں یکایک ہڑپ کرلے. اس لئے اب مارو یا مرجاؤ کا نعرہ لگاتے ہوئے فیصلہ کن ٹاکرا ناگزیر ہوچکا ہے. گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں. میں حماس کی اس جنگ کو انتہائی ناامیدی میں کی جانے والی آخری اور حتمی کوشش کے طور پر دیکھتا ہوں.
شاید آج نہیں تو کل یہ ٹمٹماتا چراغ بجھ جائے گا مگر اسے سلامِ عقیدت پیش کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں. میں خود کو ہمیشہ ان صفوں میں پاتا ہوں جن صفوں میں باغیرت اور باحمیت فلسطینی اور ان کے طرفدار کھڑے ہیں. سانحہء فلسطین سانحہء اندلس سے بڑا سانحہ ہے. چاروں طرف اپنے ہیں مگر پھر بھی یہ مظلوم اکیلے ہیں.
اہلِ فلسطین! لگ بھگ اٹھاون مسلمان ممالک کی بےحمیتی کی وجہ سے چھٹانک بھر اسرائیل تم کو مٹانے پہ تلا ہے اور شاید وقتی اور لمحاتی طور پر وہ اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب بھی ہو جائے مگر مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہاری حتمی فتح اور یہود کی فیصلہ کن شکست، ذلت و ہزیمت کی بشارت چودہ سو سال پہلے دے رکھی ہے. ہمیں چڑھتے سورج کی مانند یقین ہے کہ آخری، حمتی اور فیصلہ کن معرکے میں تمہی فتح یاب اور غالب رہو گے. ہم بہت دور ہونے کے باوجود تمہارے ساتھ رہیں، ہم دوش ہیں، ہم قدم ہیں اور ہم نفس ہیں.
Comments